غضب
----------------------------------------
اگر آپ ک والدین حیات ہیں اور آپ نے کبھی ان کا دل دکھایا ہو تو پلیز ان سے معافی مانگ لیجئے اور انکی فرمانبرداری اور خوب خدمت کیجئے کیونکہ ماں باپ کی قدر و قیمت کا اندازہ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ہوتا ہے !
قریباً چار سا ل قبل کی بات ہے، میں ایک تقریب میں شمولیت کے لیے گاﺅں گیا تو ایک لمبے عرصے کے بعد گلزار سے ملاقات ہوئی ۔ وہ ہمارے گاﺅں کے قریب ہی دوسرے گاﺅں میں رہتا تھا اور میرا سکول فیلو تھا ۔ وہ دو سال مجھ سے پیچھے تھا۔ پڑھائی میں بہت پھسڈی تھا۔ کھیل کود اور آوارگی میں مگن رہتا تھا ۔ اس لئے بار بار فیل ہوتا رہا اور آٹھویں میں تھا جب آخرکار رسی تڑا کر بھا گ گیا اور جا کر فوج میں سپاہی بھرتی ہو گیا ۔ اس کی افتادِ طبع کے پیش نظر کوئی اور کام کرنا شاید اس کے بس کی بات بھی نہ تھی اور پھر پچیس تیس سال گزر گئے۔ ہمارا آمنا سامنا نہ ہوا ۔ ایک بار سنا کہ گلزار نے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور کویت چلا گیا ہے ۔
حالانکہ اسکو ل کے زمانے میں بھی میری گلزار سے بے تکلفی نہیں رہی تھی پھر بھی فطری طور پر ایک طویل مدت کے بعد اسے دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ اس کے اطوار میں غرور اور تکبر کا انداز نمایاں تھا شاید اس لیے کہ وہ خاصا امیر ہو گیا تھا ۔ اس نے گردن بلند کر کے بتایا کہ اس نے کویت سے بہت پیسہ کمایا ہے ۔ وہ اپنے بڑے بیٹے کو بھی وہیں لے گیا تھا ۔ اس نے تین حج کئے ہیں اور اب گاﺅں میں اس نے شاندار مکان تعمیر کیا ہے ۔ میں نے بال بچوں کا پوچھا تووہ ایک دم افسردہ ہو گیا۔ اس کی گردن کا تناﺅ کم ہو گیا اور چہرے پر خزن و ملال کی پرچھائیاں گہری ہو گئیں۔ بولا:
میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے لیکن اولاد کے حوالے سے میری تقدیر بہت بری ثابت ہوئی ہے ۔
میرے استفسار پر اس نے بتایا :
" دو سال پہلے میں نے بڑے بیٹے کی شادی دھوم دھام سے کی ۔ گیارہ لاکھ روپیہ خرچ کر دیا۔ پچاس ہزار توصرف آتش بازی پر .... لیکن " اس نے بہت لمبی اور ٹھندی آہ کھینچی " لیکن دلہن بس ایک ہی را ت میرے گھر میں رہی، دوسرے دن ولیمہ تھا۔ دور و نزدیک سب رشتہ دار اور ساری برادری جمع تھی ، دلہن کے والدین بھی ولیمے میں آئے ہوئے تھے۔ رواج کے مطابق شام کو وہ دلہن کو اور میرے بیٹے کو ساتھ لے گئے اور دوسرے روز دلہن نے اعلان کر دیا کہ میں دوبارہ سسرالی گھر میں نہیں جاﺅں گی ۔ اس کا کہنا تھا کہ لڑکا بالکل بے کار ہے، اس میں مردانگی کا جوہر ہی نہیں ہے۔ " گلزار نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا : " ڈاکٹر صاحب یہ خبر ہمارے لئے قیامت سے کم نہ تھی ۔ میرا سب کچھ لٹ گیا، میں برباد ہو گیا اور رشتے داروں اور برادری میں تقسیم کے لئے جو میں نے منوں مٹھائی تیار کرائی تھی ، وہ میں نے نہر میں پھینکوا دی ۔ میں اور میرا بیٹا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے اور پھر میری بہو نے آنے سے انکار کر دیا ۔ میرا عزم تھا کہ خوا ہ کچھ ہو جائے میری بہو کو لازماً میرے ہی گھر میں زندگی گزارنی چاہئے ۔ وہ میرے بیٹے کی منکوحہ ہے ، اب اس کا کسی دوسرے گھر میں جانا گویا میری موت کے برابر ہے ۔ " کیونکہ بہو جو بات کہہ رہی تھی ، وہ بات نہیں تھی ڈاکٹر صاحب " گلزار نے زور دے کر کہا " حقیقت یہ تھی اور میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میری بہو اچھے کردار کی مالک نہ تھی ۔ وہ پولیس میں ملازم تھی اور خاصی تجربہ کار تھی جبکہ میرا بیٹا سیدھا سادھا بھولا بھالا نوجوان تھا۔ اصل با ت یہ تھی کہ وہ پچاس تولے ہضم کرنا چاہتے تھے ۔ میرا سمدھی بھی آزاد خیال آدمی تھا، اس کی شہر ت اچھی نہ تھی ۔
چنانچہ اس نے طلا ق کا مقدمہ دائر کر دیا اور پھر میں نے بھی اسے خوب چکر دئیے ، خوب ذلیل کیا ۔ ڈیڑھ سال مقدمہ چلا اور جب وہ میرا سونا واپس کرنے پر آمادہ ہوا تو میں نے ناک کی لکیریں نکلوا کر طلا ق دلا دی ۔ لیکن بھائی عبدالغنی ! ہائے میری قسمت ، ہائے میرے نصیب کہ اس کے بعد میں نے بیٹی کی شادی کی ۔ وہ آپ کے گاﺅں میں اکبر کے بیٹے کے ساتھ ۔ میں نے اتنا جہیز دیا۔ اتنا جہیز دیا کہ اس کے علا قے میں کسی نے اپنے بیٹی کو نہیں دیا ہو گا ۔ صوفہ سیٹ ، بیڈ ، ڈائنگ سیٹ، فریج ، ٹی وی ، سٹیل کے برتن، پلا سٹک کے برتن، چینی کے برتن ، میں نے اپنی سمدھن کو بھی سونے کا ایک سیٹ دیا ۔ داماد کے سارے خاندان کو ولایتی قیمتی سوٹوں سے لاد دیا اور بارات کی اتنی تواضع کی کہ دھوم مچ گئی ۔ داماد کو میں اپنے ساتھ کویت لے گیا ۔ وہاں اسے بڑی اچھی نوکری دلا دی ۔
لیکن ہائے میرا داماد بڑا ہی کمینہ اور احسان فراموش ثابت ہوا۔ اس نے معمولی سی رنجش پر پہلے میرے بیٹے کے ساتھ جھگڑا کیا ، میں نے سمجھانے کی کوشش کی تو مجھ سے بد تمیزی کی ، میرا گریبان پکڑ لیا اور پھر بدبخت نے کھڑے کھڑے میری بیٹی کو تین طلاقیں دے دیں اور پھر گلزار جذباتی ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب ، یہ تقدیر کیا ہے؟ یہ اتنی ظالم اور بے رحم کیوں ہے ؟ میں نے تین حج کئے ہوئے ہیں ، پھر میرے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا؟ میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا ہے ؟ میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اسے دلاسہ دینے لگا ۔حوصلہ اور صبر کی بات کی اورمو ضوع بدلنے کی خاطر پوچھا:
" گلزار بھائی ، آپ کے والد اور والدہ کس حال میں ہیں ؟ آپ نے اُ ن کی خدمت تو خوب کی ہو گی ۔ " میرے اس سوال پر گلزار کا موڈ یک دم بدل گیا ۔ اس نے رو تے روتے آنکھیں صاف کیں ، سنبھل کر بیٹھ گیا اور غصے میں بولا ۔
" میرے ماں باپ مر کھپ گئے ہیں۔ انہوں نے میرے لئے کچھ نہیں کیا ، بس بد دعائیں دیتے رہے اور آج میں انہی کی بد دعاﺅں کی نحوست میں گھرا ہوا ہوں ۔ " میں گلزار کے انداز ِ تکلم پر بھونچکا رہ گیا اور حیرت سے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔
آپ کو حیرت ہے کہ میں اپنے والدین کے خلا ف اس طر ح کی با تیں کیوں کر رہا ہوں ۔حقیقت ہے کہ انہوں نے میرے لئے کچھ نہیں کیا ۔ انہوں نے میری تعلیم کے لئے کچھ نہیں کیا، ورنہ کیا میں بھی اتنی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تھا جتنی آپ کی ہے ؟ آخر آپ کے ماں با پ نے بھی تو کوشش کی او ر آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی ۔ پھر میں نے اپنی زندگی کے لئے جو کچھ کیا ، خود کیا ۔ فوج میں نوکری کی ، پھر کویت چلا گیا ، بہت پیسہ کمایا ، مکان بنایا، لیکن میرے ماں باپ مجھ سے راضی نہ ہوئے ۔ وہ میری بیوی سے بھی مسلسل لڑتے رہے اور مجھے بد دعائیں دیتے رہے ۔ " گلزار کی تباہی نے مجھے بہت افسردہ اور پریشان کر دیا اور میں کمرے سے اٹھ کر باہر چلا گیا ۔ بعد میں مجھے واقفِ حال لوگوں سے پتہ چلا کہ گلزار نے اپنے ماں باپ سے بہت ہی برا سلوک روا رکھا تھا۔ اس نے کویت جا کر بہت کمائی کی ، لیکن والدین پر معمولی سا بھی خر چ نہ کیا۔ اس کی بیوی بڑی ہی بد اخلا ق اور جھگڑالو عورت تھی اور اس نے ساس سسر کا جینا حرام کر دیا ، حتٰی کہ یہ الگ مکان بنا کر وہاں منتقل ہو گئے ، لیکن والدین اپنے پرانے کچے مکان میں مقیم رہے ۔ گلزار کے والدین کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ گرمیوں کی ایک دوپہر کو سخت دھوپ میں اس کی بوڑھی ماں کھلی چھت پر بنے ہوئے تنور میں روٹیاں پکا رہی تھی کہ اسے چکر آیا ۔ چھت سے نیچے گر گئی اور دم توڑ گئی ۔ یہ ظالم ان دنوں کویت میں تھا ۔
اس نے ماں کے جنازے میں شمولیت کرنے کی زحمت بھی نہ کی ۔ با پ بھی اس حادثے کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہا اور فوت ہو گیا اور اس کے جنازے میں بھی بد نصیب شامل نہ ہوا۔ گلزار کی بے حسی اور زن مریدی کا یہ عالم تھا ۔ ایک چشم دید خاتون نے بتایا کہ ایک بار گلزار کویت سے حج کے لئے گیا اور وہاں سے پا کستان آیا ۔ ماں کو پتہ چلا کہ بیٹا حج کر کے آیا ہے ۔ تو وہ محبت اور اشتیاق سے اسے ملنے کے لئے گئی ۔ گلزار نے ایک جاء نماز اٹھایا اور ماں کو پیش کیا ۔ بیوی قریب بیٹھی تھی ، وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور اس نے جھپٹ کر جاء نماز اپنی ساس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
" میں تمہاری ماں کو مصلیٰ نہیں دوں گی ۔ " بیوی نے کہا اور ماں آنسو بہاتی بیٹے کے گھر سے اٹھ کر آ گئی ۔ گلزار کو جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنی بیوی کو اس سفاکی پر ڈانٹتا اور ماں کو راضی کرتا، وہ بے غیرت خاموش بیٹھا رہا۔ ساری بات میری سمجھ میں آ گئی ۔ اس صورتِ حال میں اللہ کا غضب گلزار پر کیوں نہ ٹوٹتا ، اس کے ہر کا م میں بگاڑ کیوں پیدا نہ ہوتا اور ہر معاملے میں اسے ذِلت و رسوائی کا سامنا نہ کر نا پڑتا ؟ لیکن شامتِ اعمال نے گلزار کا اب تک پیچھا نہیں چھوڑا ،اس نے والدین کے ساتھ جس بے حسی اور شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کیا تھا، وہ اب تک اس کے وبال میں مبتلا ہے ، چنانچہ اس نے دو سال قبل اپنے بڑے بیٹے کی دوبارہ شادی کی ، لیکن چونکہ بیٹا جنسی اعتبار سے واقعتاً ناکارہ تھا ، اس لئے گھر میں ایک عجیب و غریب ، نا گفتی صورتِ حال پیدا ہو گئی ۔ گلزار گزشتہ چند سالوں سے کویت کی ملازمت ترک کر کے مستقلاً گاﺅں میں رہتا ہے ۔ بیٹے کی شادی ہوئی تو وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے کو یت چلا گیا ۔ گھر میں جوان بہو تھی اور گلزار کسی اخلاقی ضابطے کا پابند نہ تھا ، چنانچہ فضا اب ایسی بن گئی کہ گلزار کی اپنی بیوی سے تند و تیز جنگ شروع ہو گئی اور اب اس جنگ نے ایسے المیے کی صورت اختیار کر لی ہے کہ اس پر چشم عبرت رکھنے والا کوئی فرد بھی کانپ کا نپ اٹھتا ہے ۔ میاں بیوی میں روز ہی لڑائی ہوتی ہے اور یہ لڑائی اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ گلزار بیوی کو چھڑی سے مارتا ہوا اور تعاقب کرتا ہوا باہر گلی میں آ جاتا ہے ۔ وہ بیوی جس نے اپنے ساس کے ہاتھ سے مصلیٰ چھین لیا تھا، اب بال کھولے ، خستہ حال، چیخ و پکار کرتی ہوئی باہر گلی میں بھا گ رہی ہوتی ہے۔ وہ بہو کے حوالے سے گلزاز پر کھلے بندوں الزام لگاتی ہے اور گلزار اس کی پٹائی کرتا ہوا اس کا پیچھا کر رہا ہوتا ہے ۔ وہ بھی جنونیوں کی طر ح چیختا ہے، لوگو میری بیوی پاگل ہوگئی ہے ، اس لئے میں اس کو ماررہا ہوں ، آﺅ تم بھی اسے مارو تا کہ اس کا دما غ ٹھیک ہو جائے ۔ "
اور یہ درد ناک اور عبرت ناک سلسلہ بڑی دیر سے جاری ہے۔ گلزار کی زندگی کتوں سے بدتر ہو گئی ہے اس کی عزت خاک میں مل گئی ہے ، کوئی اس سے بات نہیں کرتا ، اس کے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتا اور تب مجھے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یا د آتی ہے جو صحیح مسلم
میں شا مل ہے۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے
" وہ آدمی ذلیل ہو، وہ خوار ہو ، وہ رسوا ہو جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے
کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کر کے اور انہیں
خوش کر کے جنت حاصل نہ کرے۔" ( بحوالہ معارف الحدیث جلد ششم)
ظاہر ہے جس شخص کے حق میں حضور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم بد دعا کریں، وہ گلزار کی طر ح ذلیل و خوار نہ ہو تو اور کیا ہو؟
---------------------------------
الله ہمارے سروں پر ماں باپ کا سایہ ہمیشہ قائم رکھے اور ہمیں ان کی فرمانبرداری کرنے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماائے.....آمین ثم آمین
--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "vupindi" group.
To post to this group, send email to vupindi@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
vupindi+unsubscribe@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/vupindi?hl=en
No comments:
Post a Comment