فقہ حنفی کی خصوصیات
یہ تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی تدوین شورائی طریقے پر ہوئی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی طریق اجتہاد اور آزادانہ بحث ونقد نے فقہ حنفی میں نصوص ورائے اور مقاصد شریعت وانسانی مصالح کے درمیان ایک خاص قسم کا توازن پیدا کردیا ہے، جو دوسرے مکاتب فقہیہ میں کم نظر آتا ہے، فقہ حنفی کے طریق اجتہاد اور اصول استنباط نیز اس کی مستنبط جزئیات وفروعات پر غور کرنے کے بعد اس فقہ کا عمومی مزاج ومذاق اورخصائص وامتیازات جو سمجھ میں آتے ہیں ان کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے، ذیل میں اسی نقطۂ نظر سے گفتگو کی گئی ہے:
نصوص سے غایت اعتناء
فقہ حنفی کی سب سے بڑی خصوصیت اس فقہ میں نصوص شرعیہ سے غایت اعتناء ہے، اس فقہ میں خبرواحد کو قیاس پر مقدم رکھا گیا ہے، حدیث مرسل یعنی وہ حدیث جس کو تابعی نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہو اور درمیانی واسطہ یعنی صحابی کا ذکر نہ کیا ہو(التقریب: ۱/۳، شاملہ) امام ابوحنیفہؒ نے بعض خاص شرطوں اور تفصیلات کے ساتھ قبول کیا ہے، عبادات کے باب میں احناف نے بعض مواقع پر ضعیف روایات کو بھی قبول کرلیا ہے، نماز میں قہقہہ کا ناقض وضو ہونا (سنن الدار قطنی: ۱/۱۶۳، دانش) اس کی واضح مثال ہے، آثارِ صحابہ کو بھی فقہ حنفی میں حجت مانا گیا ہے، اس سلسلہ میں فقہائے احناف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جن مسائل میں قیاس واجتہاد کی گنجائش نہیں ہے ان میں صحابہ کی رائے حدیث رسول کے درجہ میں ہوگی؛ کیونکہ ضروری ہے کہ ان حضرات نے یہ رائے آپﷺ سے سن کر یاآپﷺ کو کرتے ہوئے دیکھ کر ہی قائم کی ہوگی؛ چنانچہ امام ابوحنیفہؒ نے حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن، حضرت انس رضی اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۹۶۴۲) اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ہی کی آراء (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۹۶۴۳) پر مقرر کی ہے۔
مصادرِشرعیہ کے مدارج کی رعایت
مختلف دلائل کے درجات ومراتب کی رعایت اور ان میں غایت درجہ توازن واعتدال، فقہ حنفی کا نمایاں وصف ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کتاب اللہ کی اولیت اور اس کی بالاتری کا اس میں ہرجگہ لحاظ کیا گیا ہے، حدیث سورۂ فاتحہ کو نماز کے لیے ضروری قرار دیتی ہے۔
(بخاری: ۱/۱۰۴، اشرفیہ)
قرآن کہتا ہے کہ قرآن پڑھاجائے تو سکوت اور گوش برآواز رہنا ضروری ہے۔
(الاعراف: ۲۰۴)
حنفیہ نے ان دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھاہے؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ کی تلاوت کو واجب قرار دیا (ہدایہ مع البنایہ: ۲/۲۴۵، بیروت) لیکن اقتداء کررہا ہو تو کہا کہ امام کی قرأت اصل اپنی طرف سے ہوتی ہے اور نیابۃً اپنے مقتدیوں کی طرف سے ہے (بدائع الصنائع، قصص فی ارکان الصلاۃ: ۱/۴۵۷) حدیث سے نیت کی تاکید ثابت ہے (سنن الترمذی: ۱/۶) قرآن نے جہاں تفصیل کے ساتھ ارکان وضوء کا ذکر کیا ہے، نیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے (المائدہ:۶) احناف نے حدیث وقرآن دونوں پر عمل کیا، وضوء کے انہی افعال کو رکن قرار دیا جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور حدیث سے جو نیت کی تاکید ثابت ہے اسے مسنون کہا تاکہ دونوں پر عمل ہوجائے، احادیث سے آمین کا ثبوت ہے (صحیح البخاری: ۱/۱۰۸، اشرفیہ)روایات آمین بالجھر کی بھی ہیں (السنن الکبری للبیہقی: ۲/۸۳) اور سرکی بھی (المستدرک علی الصحیحین مع تعلیق الذہبی، حدیث نمبر: ۲۹۱۳) لیکن خود قرآن مجید نے دعا کا جوادب بتایا وہ یہ کہ کیفیت میں خشوع اور تضرع ہو اور آواز پست ہو (الانعام:۶۳) حنفیہ نے دونوں کی رعایت کی ہے، ہدایت قرآنی کے مطابق آمین (چونکہ دعا ہے) آہستہ کہی جائے (تبیین الحائق، فصل الشروع فی الصلاہ: ۲/۸۵) اور جہر کی حدیث کو ابتدائے اسلام یاتعلیم وتربیت کے نقطۂ نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وقتی عمل سمجھا جائے تاکہ کسی کو انکار کرنے کی نوبت نہ آئے۔
(بدائع الصنائع، فصل فی سنن حکم التکبیر ایام التشریق: ۲/۳۰۲)
نقد حدیث میں اصول درایت سے استفادہ
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کو پرکھنے کے لیے درایت سے فائدہ اٹھانے کی طرح ڈالی اور اس کے لیے دوصورتیں اختیار کیں، اوّل تو خود حدیث کے متن اور اس کے مضمون پر نظر ڈالی کہ آیا یہ دین کے مجموعی مزاج سے مطابقت رکھتا ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو ایسی اخبار آحاد کی کوئی مناسب تاویل کی اور اس پر رائے کی بنیاد نہیں رکھی، دوسرے راوی پر بھی غور کیا کہ خود راوی میں حدیث کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے اور منشأ نبوی تک پہونچنے کی صلاحیت ہے یانہیں کہ کبھی راوی معتبر ہوتا ہے؛ مگر غلط فہمی سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے، یاکبھی دوروایتیں متعارض نظر آتی ہیں اور تاویل وتوجیہ کے ذریعہ ان میں تطبیق کی گنجائش بھی نہیں رہی تو جس مضمون کی روایت زیادہ فقیہ راویوں سے مروی ہو اس کو ترجیح دی جائیگی؛ اس سلسلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وہ واقعہ بہت ہی مشہور ہے جو امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ملاقات کے وقت پیش آیا تھا، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے دریافت کیا کہ آپ حضرات رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صحیح طور پر اس کا ثبوت نہیں ہے، اوزاعی رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ مجھ سے زہری نے اورزہری نے سالم سے اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حضورﷺ کا رفع یدین کرنا نقل کیا ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے، ان سے ابراہیم نے ابراہیم سے علقمہ واسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آغاز نماز ہی میں رفع یدین فرمایا کرتے تھے، امام اوزاعی رحمہ اللہ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ ان کے اور رسول اللہﷺکے درمیان تین ہی واسطے ہیں اور وہ بھی ایسے کہ اپنے اعتبار وثقاہت کے لحاظ سے حدیث اور روایت کی دنیا کے آفتاب وماہتاب ہیں؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ نے اپنے نقطۂ نظر کی ترجمانی اس طرح کی کہ حماد زہری سے اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ کا شرف صحبت ملحوظ نہ ہوتا تو میں کہتا کہ علقمہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو عبداللہ بن مسعود ہی ہیں، یہ سن کر امام اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے۔
(قواعد فی علوم الفقہ: ۲۴۶، لعلامہ ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ)
احناف کی اس اصل سے دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی فائداُٹھایا ہے، غور کیجئے عبداللہ بن عباس سے بسند صحیح مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو چھ سال کے بعد حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں نکاح جدید کے بغیر سابقہ نکاح ہی کی بناء پر دے دیا تھا (سنن الترمذی: ۱/۱۳۶) حالانکہ درمیان میں چھ سال کا وقفہ ہوا، جس میں ابوالعاص مشرک تھے؛ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کے باوجود رشتۂ نکاح کو باقی رکھا، اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ دونوں کا نکاح فرمایا (سنن الترمذی: ۱/۱۳۶) اس دوسری روایت کے متعلق امام ترمذی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ سند کے اعتبار سے اس کی صحت مشکوک ہے (ترمذی، حدیث نمبر:۱۰۶۱) مگرساتھ ہی امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ صراحت کی ہے کہ ائمہ اربعہ اور دوسرے فقہاء کا اسی پر عمل ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ یزید بن ہارون کے واسطے سے لکھتے ہیں:
"حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ"۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۰۶۳)
یہاں دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے مزاج کے مطابق روایت کے ردوقبول میں درایت ہی سے کام لیا ہے؛ تاہم اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ اصول کوئی خود ساختہ نہیں تھا، خود صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ہمیں اس کی مثال ملتی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مطلقہ بائنہ کی عدت کے نفقہ کے متعلق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی روایت کو یہی کہہ کر رد کردیا تھا کہ ایک ایسی عورت کی بات پر اعتماد کرکے ہم کس طرح کتاب وسنت کو نظرانداز کردیں جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ اس نے صحیح کہا یاغلط اور یاد رکھا یاپھربھول گئی ۔
(ترمذی، حدیث نمبر:۱۱۰۰)
اسی طرح ہم عمر رضی اللہ عنہم کو دیکھتے ہیں کہ بعض فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم کی تنہا روایت قبول کرلیتے ہیں اور بعض صحابہ کی روایت کسی تائیدی راوی کے بغیر قبول نہیں کرتے (مسلم، حدیث نمبر: ۴۰۰۶) یہی طریقہ تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے طریقۂ استنباط میں اختیار کیا ہے۔
حقوق اللہ میں احتیاط
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت حقوق اللہ اور حلال وحرام میں احتیاط کی راہ اختیار کرنا ہے، امام کرخی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
"اِنَّ الْإِحْتِیَاطَ فِیْ حُقُوْقِ الله جَائِزٌ وَفِیْ حُقُوْقِ الْعِبَادِ لَایَجُوْزُ… إِذَادَارَتِ الصَّلوٰۃ بَیْنَ الْجَوَازِ وَالْفَسَادِ فَالْاِحْتِیَاطُ اَنْ یُعِیْدَ الاَدَاءُ"۔
(اصول الکرخی:۱۴۳)
حقوق اللہ میں احتیاط جائز ہے، حقوق العباد میں جائز نہیں؛ چنانچہ جب نماز میں جواز وفساد کے دوپہلو پیدا ہوجائیں تو احتیاط نماز کے اعادہ میں ہے۔
چنانچہ غور کیا جائے تو عبادات میں امام صاحب رحمہ اللہ کے یہاں احتیاط کے پہلو کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا گیا ہے، نماز میں گفتگو کو مطلقاً مفسد قرار دیا گیا ہے، چاہے بھول کر یااصلاح نماز کی غرض سے کیوں نہ گفتگو کی گئی ہو (عالمگیری: ۱/۹۸، دارالکتاب) مصحف کو دیکھ کر نماز پڑھنے کو مفسد مانا گیا ہے (الھندیہ: ۱/۱۰۱، دارالکتاب) نماز کی حالت میں قہقہہ کو ناقض وضو قرار دیا گیا (ردالمحتار: ۱/۶۷۲، زکریا) روزہ خواہ کسی طور پر توڑا جائے، خوردونوش کے ذریعہ یاجماع کے ذریعہ، اس کو موجب کفارہ کہا گیا ہے(عالمگیری: ۱/۲۰۵، دارالکتاب) دسویں ذی الحجہ کو افعال حج میں ترتیب ضروری قرار دی گئی ہے (البحرالرائق، کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج: ۷/۲۲۴) حرمت مصاہرت میں بھی سختی برتی گئی، زنا بلکہ دواعی زنا کو بھی حرمت کے ثبوت کے لیے کافی سمجھا گیا (الدرالمختار:۲/۷۹، زکریا) حرمت رضاعت کے معاملہ میں بھی دودھ کی کسی خاص مقدار کو پینے کی قید نہیں رکھی گئی؛ بلکہ ایک قطرہ دودھ کو بھی حرمت رضاعت کا باعث قرار دیا گیا۔ (شامی)
یسروسہولت کا لحاظ
فقہ حنفی میں انسانی ضروریات اور مجبوریوں کا خیال اور شریعت کے اصل مزاج یسراور رفع حرج کی رعایت قدم قدم پر نظر آتی ہے، مثلاً اکثر فقہاء نے نجاست کو مطلقا نماز کے منافی قرار دیا ہے اور ادنی درجہ کی نجاست کو بھی قابل عفو نہیں مانا (الفقہ الاسلامی وادلتہ، الباب الاول الطہارت: ۱/۲۸۳) لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اول تو نصوص کے لب ولہجہ، فقہاء کے اتفاق واختلاف اور ان کے حالات ومجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے نجاست کی تقسیم کی اور غلیظہ وخفیفہ دوقسمیں قرار دیں، دوسرے نجاست غلیظہ میں ایک درہم اور نجاست خفیفہ میں ایک چوتھائی تک معاف قرار دیا (عالمگیری:۱/۴۵،۴۶، دارالکتاب) پانی کثیر وقلیل مقدار کے لیے کوئی تحدید نہ کی اور اس کو لوگوں کی رائے پر رکھا، جو خود پاکی یاناپاکی کے مسائل سے دوچار ہوں (الدرالمختار: ۱/۳۴۰، زکریا)حقیقت یہ ہے کہ یہ امام ابوحنیفہؒ کے کمال ذہانت اور غایت درجہ فراست کی بات ہے جو انہو ں نے اس سلسلہ میں اختیار کی ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ہی مقدار کسی علاقہ کے لیے کثیر اور کسی علاقہ کے لیے قلیل قرار پائے، مثلاً: ہندوستان کے نشیبی خطہ میں جہاں جگہ جگہ پانی کے بڑے بڑے تالاب ہیں اور پانی کی سطح ۵۰/۶۰/فٹ پر ہے اور راجستھان کے صحراء جہاں پانی کی شدید قلت اور پانی کی سطح نہایت نیچے ہے، کو قلیل وکثیر مقدار کے معاملہ میں ایک ہی پیمانہ کے تحت رکھنا لوگوں کے لیے نہایت تنگی اور دشواری کا باعث ہوگا، احناف کی اس رائے کی روشنی میں ایسے مختلف حالات میں تنگی ودشواری سے بچاجاسکے گا، گرما کے موسم میں تاخیر اور نسبتاً ٹھنڈا ہونے کے بعد نمازِ ظہر کا مستحب ہونا (الدر المختار: ۲/۲۴، زکریا) اور اچھی طرح صبح کھلنے کے بعد نماز فجر کی ادائیگی کو ترجیح دینا (الدرالمختار: ۲/۲۴) فقہ حنفی کے اسی مزاج کا عکاس ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی میں شوافع کے یہاں ضروری ہے کہ قرآن میں بیان کردہ آٹھوں مصارف اور ہرمصرف کے کم سے کم تین حقدار کو دیا جائے؛ گویا ہرکم وبیش زکوٰۃ کم سے کم ۲۴/حقداروں پر تقسیم کی جائے، تب زکوٰۃ ادا ہوگی، اس میں جس قدر دقت ہے وہ محتاج اظہار نہیں، احناف نے کہا کہ کسی ایک مصرف اور اس کے ایک فرد کو بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حق ہے (تبیین الحائق، باب المصرف: ۳/۴۶۷) اس میں جس قدر سہولت ہے وہ ظاہر ہے؛ تاہم ایسا نہ سمجھنا چاہئے کہ احناف یسروسہولت کے لیے اور حرج ومشقت کے ازالہ کی غرض سے نصوص اور حدیث کی صراحتوں کو بھی نظر انداز کردیتے ہیں، علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ کا بیان ہے:
"اَلْمَشَقَّةُ وَالْحَرَجُ اِنَّمَا یُعْتَبَرَانِ فِیْ مَوْضَعٍ لَاَنَصَّ فِیْه"۔
(الاشباہ:۱۳۸)
مشقت وحرج کا اعتبار ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں نص موجود نہ ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ احناف نے اس باب میں جس درجہ توازن برتا ہے اور شریعت الہٰی اور ضرورت انسانی کو جس طرح دوش بدوش رکھا ہے وہ شریعت کے اوامر ونواہی اور شریعت کے مقاصد ومصالح دونوں میں گہری بصیرت اور عمیق فہم کا ثبوت ہے۔
عقل واصول سے مطابقت
فقہائے احناف نے دین کے اصول مسلمہ اور قواعد متفقہ نیز عقل سے ہم آہنگی کا خاص خیال رکھا ہے، مثلاً: شریعت کی ایک تسلیم شدہ اصل یہ ہے کہ انسانی جسم پاک ہے اور اس کو چھونا موجب نجاست نہیں، یہ عین مطابق عقل ودانش بھی ہے؛ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے شرمگاہ یاعورتوں کے چھونے کو ناقض وضو قرار نہیں دیا (الدرالمختار، سنن الوضواء: ۱/۴۰۵) آگ میں پکی ہوئی چیزوں کے استعمال کو بھی ناقض وضو نہیں سمجھا (المبسوط للسرخسی: ۱/۱۴۲) صلوۃ کسوف میں دو، تین، چار اور پانچ رکوع والی روایات کے مقابلہ ہررکعت میں ایک رکوع والی روایت کو ترجیح دیا کہ یہ نماز کے عام اصول ومعمول کے مطابق ہے (شامی، باب الکسوف: ۶/۱۸۶) جانور کا دودھ روک کر اسے فروخت کیا جائے، ایسی صورت میں بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ جانور اور دودھ سے انتفاع کے بدلے ایک صاع کھجور ادا کی جائے، ظاہر ہے کہ یہ حکم شریعت کے عام قانون مکافات اور اصولِ مجازات سے مطابقت نہیں رکھتے؛ چنانچہ حنفیہ نے اس روایت کو اخلاقی ہدایت پر محمول کیا ہے اور اس نفع کو قانونی طور پر ناقابل عوض ٹھہرایا ہے؛ کیونکہ دین اور اصول انصاف کے مسلمہ اصولوں میں سے یہ ہے کہ جو شخص نقصان کا ذمہ دار ہو، وہی نفع کا بھی حقدار ہے؛ چنانچہ اس صورت میں اگر وہ جانور ہلاک ہوجاتا تو خریدار کو ہی یہ نقصان اٹھانا پڑتا، تو ضروری ہے کہ اس مدت میں جانور کے ذریعہ جو نفع حاصل ہوا ہو، وہی اس کا مالک اور حقدار قرار پائے (عالمگیری، الفصل الثانی فی معرفۃ عیوب الدواب وغیرھا: ۳/۷۲) فقہائے احناف کی آراء اور دوسرے فقہی مذاہب سے اس کا تقابل کیا جائے تو قدم قدم پر فقہ حنفی کا یہ مذاق نمایاں ہوکر سامنے آئیگا۔
مذہبی رواداری
مذہبی آزادی اور غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور مذہبی وانسانی حقوق کا لحاظ جس درجہ فقہ حنفی میں رکھا گیا ہے وہ غالبا اس کا امتیاز ہے، غیرمسلموں کو اپنے اعتقادات کے بارے میں اور ان اعتقادات پر مبنی معاملات کے بارے میں احناف کے یہاں خاص فراخدلی اور وسیع الظرفی پائی جاتی ہے، قاضی ابوزید دبوسی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس ذوق ومزاج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
"اَلْاَصْلُ عِنْدَاَبِیْ حَنِیْفَة اَنَّ مَایَعْتَقِدُہٗ اَهلُ الذِّمَّة وَیُدِیْنُوْنَہٗ یَتْرُکُوْنَ عَلَیْهِ"۔
(تاسیس النظر:۱۳)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اصل یہ ہے کہ اہل ذمہ جو عقیدہ رکھتے ہوں اور جس دین پر چلتے ہوں ان کو اس پر چھوڑ دیا جائے۔
چنانچہ جن غیرمسلموں کے یہاں محرم رشتہ داروں سے نکاح جائز ہو، امام صاحب کے نزدیک ان کے لیے اپنے ایسے رشتہ داروں سے نکاح کرنے پر روک نہیں لگائی جائے گی (شامی، باب نکاح الکافر: ۱۰/۲۷۹) اسی طرح غیرمسلم زوجین میں سے ایک فریق مسلمان قاضی کی طرف رجوع ہو اور شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کا طالب ہو تو قاضی اس معاملہ میں دخل نہیں دے گا، جب تک کہ دونوں فریق اس کے خواہش مند نہ ہوں (شامی، باب نکاح الکافر: ۱۰/۲۸۳) اسی طرح غور کریں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جس طرح مسلم ملک کا غیرمسلم شہری کسی مسلمان کو قتل کرنے کے جرم میں قصاصاً قتل کیا جائے گا اسی طرح مسلمان سے بھی غیرمسلم شہری کے قتل پر قصاص لیا جائیگا (الأم، باب دیۃ اھل الذمۃ: ۷/۳۲۲) یہی حال دیت اور خون بہا کا بھی ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے انسانی خون میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا ہے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دیت کی مقدار برابر رکھی ہے؛ جب کہ عام فقہاء کی رائے اس سے مختلف ہے، یہ چند مثالیں ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جزئیات موجود ہیں جن سے فقہ حنفی کے اس مزاج کی نشاندہی ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی طرف گناہ کی نسبت سے احتراز
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ فعل مسلم کو حتی المقدور حرمت کی نسبت سے بچانے اور حلال جہت پر محمول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، امام کرخی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اِنَّ اُمُوْرَالْمُسْلِمِیْنَ مَحْمُوْلَةٌ عَلیٰ السِّدَادِ وَالصَّلَاحِ حَتّٰی یُظْهِرَ غَیْرُہٗ، مِثَالُ مَنْ بَاعَ دِرْهمًا وَدِیْنَارًا بِدِرْهمَیْنِ وَدِیْنَارَیْنِ جَازَ الْبَیْعُ وَصَرْفُ الْجِنْسِ اِلیٰ خِلَافِ جِنْسِهٖ"۔
(اصول الکرخی: ۱۴۰)
مسلمانوں کے معاملات صلاح ودرستگی پر محمول کئے جائیں گے، تاآنکہ اس کے خلاف ظاہر وواضح ہوجائے، مثلاً: کوئی شخص ایک درہم اور ایک دینار، دودرہم اور دودینار کے بدلہ فروخت کرے تو معاملہ جائز ہوگا اور ایک درہم کو دودینار اور ایک دینار کو دودرہم کے مقابل سمجھا جائے گا۔
اسی طرح ثبوت نسب کے معاملہ میں حنفیہ نے ممکن حد تک احتیاط اور زناکی طرف انتساب سے بچانے کی کوشش کی ہے، قاضی ابوزید دبوسی رحمہ اللہ نے صحیح لکھا ہے:
"اَلْاَصْلُ عِنْدَنَا اَنَّ الْعِبْرَۃ فِیْ ثُبُوْتِ النَّسَبِ صِحَّةُ الْفِرَاشِ وَکَوْنِ الزَّوْجِ مِنْ اَهلِه لَابِالتَّمَکُّنِ بِالْوَطْیِ"۔
(تاسیس النظر:۵۹)
ہمارے یہاں اصل یہ ہے کہ ثبوت نسب کے لیے (نکاح کے ذریعہ) فراش کا صحیح ہونا اور شوہر کا اس کا اہل ہونا کافی ہے، فی الواقع وطی پر قادر ہونا ضروری نہیں ہے۔
چنانچہ وقت نکاح سے ٹھیک چھ ماہ پر ولادت ہو تب بھی حنفیہ کے یہاں نسب ثابت ہوجائے گا (شامی، فصل فی ثبوت النسب: ۶/۱۶۲) اس طرح زوجین میں مشرق ومغرب کا فرق ہو اور بظاہر زوجین کی ملاقات ثابت نہ ہو اس کے باوجود نسب ثابت ہوجائے گا؛ تاکہ کسی مسلمان کی طرف فعل زنا کی نسبت سے بچاجاسکے، کسی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگائے جانے اور دائرہ اسلام سے خارج کئے جانے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کس درجہ محتاط تھے، اس کا اندازہ علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ابن نجیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام صاحبؒ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو کہتا تھا کہ مجھے جنت کی امید نہیں، جہنم کا اندیشہ نہیں، خدا سے ڈرتا نہیں ہوں، قرأت اور رکوع وسجدہ کے بغیر نماز پڑھ لیتا ہوں اور ایسی چیز کی شہادت دیتا ہوں جسے دیکھا تک نہیں، حق کو ناپسند کرتا ہوں اور فتنہ کو پسند کرتا ہوں، امام صاحب رحمہ اللہ نے ان تمام باتوں کی توجیہ فرمائی، فرمایا کہ جنت کے امیدوار نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی رضا کا امیدوار ہوں اور جہنم سے نہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا سے ظلم کا خطرہ نہیں، بغیر رکوع وسجدہ اور قرأت کے نماز سے مراد نمازِ جنازہ ہے، بن دیکھی گواہی توحید کی گواہی ہے، حق سے بغض رکھنے سے مراد موت کو ناپسند کرنا ہے کہ موت بھی سب سے بڑی حقیقت ہے، فتنہ سے محبت کے معنی اولاد سے محبت ہے؛ کیونکہ کہ اولاد کو قرآن میں فتنہ قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ استفسار کرنے والا کھڑا ہوا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جبین فراست کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ آپ ظرفِ علم ہیں (الاشباہ مع حموی: ۳۰۶) غور کیا جائے کہ کس طرح ایک مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے سے بچایا گیا؛ البتہ اگر قائل خود ہی کفر کا اعتراف کرلے تو پھر کسی تاویل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔
قانون تجارت میں دقیقہ سنجی
عبادات کے باب میں نصوص وافرمقدار میں منقول ہیں، نکاح کے متعلق بھی جزئیات اور تفصیلات کا ایک قابل لحاظ حصہ کتاب وسنت میں موجود ہے؛ لیکن تجارت کے باب میں کتاب وسنت میں صرف ضروری اصول اور بنیادی قواعد کی نشاندہی کردی گئی ہے، جن سے شریعت کے مقاصد کی وضاحت ہوجاتی ہے، جزوی تفصیلات بہت کم مذکور ہیں اور ایسا ہونا مصلحت کے عین مناسب ہے؛ کیونکہ اگر معاملات میں عبادات کی طرح حد بندی کردی جاتی تو تغیر پذیر حالات اور متعین قدروں میں ان پر عمل مشکل ہوجاتا، اس لیے تجارت کی جزوی تفصیلات قیاس ورائے اور اجتہاد واستنباط ہی کی رہین منت ہیں اور ان تفصیلات کی تنقیح میں شرح وبسط اور دقت نظر مجتہد کی بصیرت اور فہم کا اصل مظہر ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بڑے تاجروں میں تھے اور کوفہ میں سب سے بڑی دوکان آپ ہی کی تھی، اس لیے طبعی بات ہے کہ تجارت کے احکام جس تفصیل اور وسعت وعمق اور دقت نظری کے ساتھ آپ کے یہاں ملتے ہیں دوسرے فقہاء کے یہاں نہیں ملتے، مثلاً:
۱۔حدیث میں قبضہ سے پہلے کسی سامان کو فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے زمین کو منقولہ جائداد کے حکم سے مستثنی رکھا کہ شریعت کا اصل منشا دھوکہ اور غرر سے تحفظ ہے، منقولہ اشیاء میں اس کا امکان موجود ہے کہ شاید قبضہ میںآنے سے پہلے ہی یہ شیٔ ہلاک وضائع ہوجائے اور غیرمنقولہ جائداد میں بظاہر یہ امکان نہیں ہے۔
(البحرالرائق، فصل فی بیان التصرف فی البیع والثمن قبل قبضہ: ۱۶/۲۲۸)
۲۔حدیث میں بعض مواقع پر کسی تفصیل کے بغیر ذخیرہ اندوزی (احتکار) کو منع کیا گیا ہے (صحیح مسلم: ۸/۳۱۲، حدیث نمبر: ۳۰۱۲) بعض مواقع پر خصوصیت سے اشیاء خوردنی میں ذخیرہ اندوزی کی مذمت آئی ہے، امام ابوحنیفہؒ لوگوں کی ضروریات سے بخوبی واقف تھے اور اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ بعض اشیاء کہ سال بھر ان کی رسد برقرار رکھنے کے لیے ایک گونہ ذخیرہ اندوزی ضروری ہے اور اس میں شارع کا اصل منشا فروخت کے ذخیرہ کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ گاہکوں کے استحصال سے روکنا اور روز مرہ کی زندگی میں ان دشواریوں سے بچانا ہے، ان تمام پہلووں کو سامنے رکھتے ہوئے امام صاحب نے یہ رائے قائم کی کہ نہ ہرشیٔ میں احتکار ممنوع ہے اور نہ یہ ممانعت غذائی اشیاء تک محدود ہے؛ بلکہ عام انسانی ضرورت بھی اس ممانعت میں داخل ہے کہ ان میں احتکار اسی درجہ لوگوں کے لیے مشکلات اور دقتوں کا باعث ہے جتنا کہ اشیاء خوردنی میں۔
(بدائع الصنائع، کتاب الاستحسان: ۲۳)
۳۔بیع سلم میں معاملہ کے وقت مبیع موجود نہیں ہوتی، بعد کو ادا کی جاتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی اچھی طرح تعیین عمل میں آجائے؛ تاکہ آئندہ نزاع کا کوئی امکان باقی نہ رہ جائے، فقہ حنفی میں اس کی بڑی تفصیل ملتی ہے؛ چنانچہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ضروری قرار دیا کہ اس شیٔ کی جنس، نوعیت، مقدار، صفت، ادائیگی کی مدت، مبیع کی حوالگی کے مقام کے علاوہ کس شہر کی صنعت ہے؟ اور اس کی صراحت بھی کردی جائے کہ مختلف شہروں اور علاقوں کی صنعتوں اور ان کی قیمتوں میں قابل لحاظ فرق ہوتا ہے (الدرالمختار، باب السلم: ۲۰/۲۳۳) اسی طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے گوشت میں بیع سلم کی اجازت نہیں دی اور وجہ یہ بیان کی کہ گوشت کبھی فربہ ہوتا ہے اور کبھی اس کے برعکس (الدرالمختار، باب السلم: ۲۰/۲۴۲) بہرحال تجارتی قوانین میں اس کی بہت سی جزئیات موجود ہیں جو امام صاحب کی دقت نظر، مقاصد شریعت، فہم صحیح، انسانی ضروریات سے آگہی، تاجروں کے مزاج سے واقفیت اور احتیاطی پیش بندی کا مظہر ہیں۔
حیلۂ شرعی
حیلہ کے اصل معنی معاملات کی تدبیر میں مہارت کے ہیں "اَلْحَذَقُ فِیْ تَدْبِیْرِ الْاُمُوْرِ" (الاشباہ: ۴۰۶) شریعت کی اصطلاح میں حرمت ومعصیت سے بچنے کے لیے ایسی خلاصی کی راہ اختیار کرنے کا نام ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو(المبسوط: ۳۳/۴۸۶) حیلہ کے تعلق سے احناف کے نقطۂ نظر کا انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور صرف حیلہ کی تعبیر پر توجہ مرکوز نہ رکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ فن احناف کے یہاں کمال ذکاوت، امت کو حرام سے بچانے کی سعی اور شریعت کی حدوداربعہ میں رہتے ہوئے انسانیت کو حرج سے بچانے کے محمود جذبات کا عکاس ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"فَالْحَاصِلُ اَنَّ مَایَخْتَلِصُ بِهٖ الرَّجُلُ مِنَ الْحَرَامِ اَوْیَتَوَصَّلُ بِهٖ اِلیٰ الْحَلَالِ مِنَ الْحِیَلِ فَهُوَ حَسَنٌ وَاِنَّمَا یَکْرَہ ذٰلِکَ اَنْ یَحْتَالَ فِیْ حَقِّ لِرَجُلٍ حَتّٰی یُبْطِلَه اَوْفِیْ بَاطِلٍ حَتّٰی یَمُوْہٗ… فَمَاکَانَ عَلیٰ هذَا السَّبِیْلِ فَهُوَ مَکْرُوْه وَمَاکَانَ عَلیٰ السَّبِیْلِ الَّذِیْ قُلْنَا اَوَّلًا فَلَا بَأَسَ بِهٖ"۔
(المبسوط: ۳۳/۴۸۶)
حاصل یہ ہے کہ وہ حیل جن کے ذریعہ انسان حرام سے خلاصی یاحلال تک رسائی کا خواہاں ہو بہتر ہے، ہاں کسی کے حق کا ابطال یاباطل کی ملمع سازی مقصود ہو تو ناپسندیدہ ہے؛ غرض یہ ہے کہ یہ صورت درست نہیں ہے اور پہلے ذکر کی گئی صورت درست ہے۔
اس وضاحت کے بعد کسی صاحب انصاف کے لیے احناف کے نقطۂ نظر سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ہمارے فقہاء کرام نے عام طور پر عبادات میں حیلہ سے گریز کیا ہے، ابوبکر خصاف کی تالیف "کتاب المحیل والمخارج" میں عبادات میں صرف چند حیلہ ذکر کئے گئے ہیں؛ اگرکسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اور کوئی مستحق زکوٰۃ اس مقروض کو اپنی زکوٰۃ دے دے اور پھر اس سے وہی رقم بطورِ اداء قرض کے وصول کرلے۔
(ہندیہ، کتاب الیل فی مسائل الزکاۃ: ۱۵/۶۸)
اسی طرح اگر میت کی تدفین میں زکوٰۃ خرچ کرنے پر مجبور ہو تو یوں کرے کہ متوفی کے ولی جو صاحبِ نصاب کو زکوٰۃ دے دے اور وہ اسے کفن میں خرچ کردے (ھندیہ،کتاب الحیل مسائل الزکاۃ: ۵۱/۷۰) مسجد کی تعمیر کرنی ہو تو اس علاقہ کے فقراء کو زکوٰۃ دے دے کہ بطورِ خود مسجد تعمیر کرلیں، نیز یہ احتیاط بھی برتے کہ خاص تعمیر کے لیے نہ دے، بلکہ کہے کہ یہ تمہارے لیے صدقہ ہے۔
(ھندیہ، کتاب الحیل فی مسائل الزکاۃ: ۵۱/۷۰)
غور کیجئے کہ حیلہ کی ان صورتوں میں کہیں تحریم حلال اور فرائض وواجبات سے پہلو تہی کا کوئی جذبہ نظر آتا ہے؟ خود امام ابوحنیفہؒ سے طلاق وغیرہ کے مسائل میں جو حیلے منقول ہیں اور جوان کی حیرت انگیز اور تعجب خیز ذکاوت کا ثبوت ہیں وہ بالکل اسی نوع کے ہیں اور حیلہ کے ناقدین جیسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس کی داد دی ہے۔
(اعلام المؤقعین، فصل الحیلۃ المحرمہ: ۳/۲۵۱)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ جو حیلہ کے زبردست ناقد ہیں؛ انہو ں نے اعلام المؤقعین میں حیلہ کی تین قسمیں بیان کی ہیں، ایک وہ جس کا مقصد ظلم کو قبل از وقت روکنا ہو، دوسرے یہ کہ جو ظلم ہوچکا ہو اس کو دفع کیا جائے، تیسرے جس ظلم کو دفع کرنا ممکن نہ ہو اس کے مقابلہ میں اس طرح عمل کیا جائے، خود ابن قیم کا بیان ہے کہ پہلی دونوں صورتیں جائز ہیں اور تیسری صورت میں تفصیل ہے (اعلام الموقعین: ۳/۲۴۰) پس حیلہ کا اگر صحیح مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ عین رحمت ہے اور دین کے مزاج"یسر" اور "رفع حرج" کے عین مطابق ہے اور اس باب میں فقہائے احناف کی ذکاوت وفطانت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
فقہ تقدیری
فقہ حنفی کا ایک امتیاز فقہ تقدیری بھی ہے، فقہ تقدیری کا مطلب یہ ہے کہ مسائل کے پیش آنے سے پہلے ہی ممکن الوقوع مسائل کے حل کی طرف توجہ دی جائے، فقہاء حجاز جو عقلی امکانات کے تفحص اور قیل وقال سے دور اور سادہ طور پر مسائل کو سمجھنے اور رائے قائم کرنے کے خوگر تھے، وہ اس طرح کے مسائل کے احکام بتانے سے گریز کرتے تھے؛ لیکن فقہاء عراق جن کے یہاں دقیقہ سنجی، دور بینی، طلب وتفحص اور شریعت کی روح اور مقاصد میں غواصی کا رنگ غالب تھا "فقہ تقدیری" ان کے مزاج میں داخل تھی اور وہ اس پر مجبور بھی تھے کہ مشرق کے علاقہ میں نئی نئی قوموں اور علاقوں کے مملکت اسلامی میں شمولیت کی وجہ سے وہ نوپید مسائل سے بمقابلہ فقہاء حجاز کے زیادہ دوچار تھے، اسی لیے فقہاء احناف کے یہاں فقہ تقدیری کا حصہ زیادہ ہے اور افسوس کہ نصوص کے ظاہر پر جمود اور اس کے دقیق مطالعہ اور روح ومقصد تک رسائی سے مناسبت نہ ہونے کی وجہ سے بعض محدثین رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس ہنر کو عیب سمجھ لیا؛ حالانکہ خود حدیث میں موجود ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنۂ دجال کے ظہور اور اس زمانہ میں دن اور رات کے اوقات کی غیرمعمولی وسعت کا ذکر فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ اس وقت نماز پنجگانہ کیوں کر ادا کی جاسکے گی (صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۵۲۲۸) غور کیجئے کہ یہ مسئلہ قبل ازوقوع حل کرنا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔
فقہ تقدیری کے بارے میں فقہاء عراق اور فقہاء حجاز کے نقطۂ نظر کا فرق اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے جسے خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ حضرت قتادہ جب کوفہ تشریف لائے تو غائب شحص کی بیوی اور اس کے مہر کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور قتادہ کے درمیان گفتگو ہوئی، قتادہ نے دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نفی میں جواب دیا، قتادہ نے کہا جب یہ واقعہ پیش نہیں آیا تو اس کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے، امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم مسائل کے پیش آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں تاکہ مسائل جب پیش آجائیں تو ہم بآسانی اس سے عہدہ برآہوسکیں ۔
"اِنَّانَسْتَعِدُّ لِلْبَلَاءِ فَاِذَا مَاوَقَعَ عَرَفْنَا الدُّخُوْلَ فِیْہ وَالْخُرُوْجَ مِنْه"۔
(تاریخ بغداد:۶/۱۰۶، ذکر من اسمہ نعمان)
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فقہ حنفی کی مقبولیت اور اس کے شیوع کی اصل وجہ اس کی یہی خصوصیات ہیں یعنی توازن واعتدال، ضرورت انسانی کی رعایت، نصوص ومصالح کی باہم تطبیق، شریعت کی روح او رمقصد کی رعایت اور ظاہر پر جمود بے جا سے گریز، اقلیت کے ساتھ منصفانہ رویہ، شخصی آزادی کا احترام اور تقاضائے تمدن سے زیادہ مطابقت اور ہم آہنگی ہے اور بالخصوص ایک ترقی یافتہ تمدن کا ساتھ دینے کی صلاحیت ایسی بات ہے جس نے بجا طور پر خطۂ مشرق کو جو بمقابلہ دوسرے علاقوں کے زیادہ متمدن اور تہذیب آشنا تھا، فقہ حنفی پر فریفتہ کردیا