Tuesday, 18 September 2012

[~>VU-P!nD!<~] Sadrush Shari'ah Mufti Muhammad Amjad Ali al-Aa'zami Alaihir raHmah [URDU]

خلیفہ اعلیٰ حضرت ، صدر الشریعہ ، بدر الطریقہ
مفتی ابو العلیٰ محمد امجد علی اعظمی
— علیہ الرحمۃ والرضوان —


https://fbcdn-sphotos-c-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash3/72394_440261700333_2042458_n.jpg
 
شریعت کے صدرِشھیر ، طریقت کے بدر منیر ، محسنِ اھلسنّت ، خلیفہ اعلیٰ حضرت ، مصنفِ بہارِ شریعت حضرتِ علامہ مولانا الحاج مفتی محمد امجد علی اعظمی رضوی سنّی حنفی قادِری برکاتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ۱۳۰۰ھ مطابق 1882ء میں مشرقی یوپی (ہند) کے قصبے گھوسی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ ماجد حکیم جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دادا حُضُور خدابخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فنِ طِب کے ماہِر تھے۔ اِبتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت مولانا خدا بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے گھر پر حاصل کی پھراپنے قصبہ ہی میں مدرَسہ ناصر العلوم میں جا کر گوپال گنج کے مولوی الہٰی بخش صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ تعلیم حاصل کی۔ پھرجو نپورپہنچے اور اپنے چچا زاد بھائی اور اُستاذ مولانا محمد صدیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کچھ اسباق پڑھے۔ پھرجامع معقولات ومنقولات حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے اکتساب فیض کیا۔ پھر دورہ حدیث کی تکمیل پیلی بھیت میں اُستاذُ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سُورَتی علیہ الرحمۃ سے کی۔ حضرت محدثِ سُورَتی علیہ الرحمۃ نے اپنے ہونہار شاگرد کی عَبقَری  صلاحیتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:

''مجھ سے اگر کسی نے پڑھا تو امجد علی نے۔''

حیرت انگیز قوتِ حافِظہ

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا حافظہ بہت مضبوط تھا۔ ایک مرتبہ کتاب دیکھنے یا سننے سے برسوں تک ایسی یاد رہتی جیسے ابھی ابھی دیکھی یا سنی ہے۔ تین مرتبہ کسی عبارت کو پڑھ لیتے تو یاد ہو جاتی۔ ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ'' کافیہ'' کی عبارت زَبانی یاد کی جائے تو فائدہ ہو گا تو پوری کتاب ایک ہی دن میں یاد کر لی!

تدریس کا آغاز


صوبہ بہار (ہند پَٹنہ) میں مدرسہ اھلسنّت ایک ممتاز درس گاہ تھی جہاں مُقتَدِر ہستیاں اپنے علم وفضل کے جوہر دکھا چکی تھیں۔ خود صدرالشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کے استاذِ محترم حضرت مُحدِث سُورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ برسوں وہاں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہ چکے تھے۔ مُتَولّی مدرَسہ قاضی عبدالوحید مرحوم کی درخواست پر حضرت مُحدِّث سُورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے مدرسہ اھلسنّت (پَٹنہ) کے صدر مُدَرِّس کے لئے صدرُالشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتخاب فرمایا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ استاذ ِمحترم کی دعاؤں کے سائے میں''پٹنہ'' پہنچے اور پہلے ہی سبق میں عُلوم کے ایسے دریا بہائے کہ عُلَماء وطَلَبہ اَش اَش کراُٹھے۔ قاضی عبدالوحید رحمۃ اللہ علیہ (جو خُود بھی مُتَبَحِّر عالم تھے) نے صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کی علمی وَجاہت اور انتِظامی صلاحیَّت سے مُتَأَثِّر ہوکر مدرَسہ کے تعلیمی اُمور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سِپُرد کر دئیے۔

https://fbcdn-sphotos-f-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/66075_440261970333_6052785_n.jpg

اعلیٰ حضرت کی پہلی زیارت

کچھ عرصہ بعد قاضی عبدالوحید رحمۃ اللہ تعالی علیہ بانی مدرسہ اھلسنّت (پَٹنہ) شدید بیمار ہوگئے۔ قاضی صاحب ایک نہایت دیندار و دین پرور رئیس تھے۔ انکی پرہیزگاری ہی کی کشِش تھی کہ اعلٰی حضرت اورحضرت قبلہ مُحدِّث سُورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ جیسے مصروف بُزُرگانِ دین قاضی صاحِب کی عیادت کے لئے کَشاں کَشاں روہیلکھنڈ سے پٹنہ تشریف لائے۔ اسی موقع پر حضرت صدر الشریعہ نے پھلی بار اعلیٰ حضرت کی زیارت کی اور آپ کا دل اعلی حضرت کی طرف مائل ہو گیا اور اپنے استاذِ محترم کے مشورے سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ سے بَیعَت ہوگئے۔ انہی دنوں میں قاضی صاحب نے وفات پائی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور محدِّث سورَتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے قبر میں اُتارا۔ اللہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ھماری مغفِرت ہو۔

عِلْمِ طِبّ کی تحصیل اور مراجعت


 قاضی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی رِحلت کے بعد مدرسہ کا انتظام جن لوگوں کے ہاتھ میں آیا ، ان کے نامناسب اقدامات کی وجہ سے صدر الشریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی سخت کبیدہ خاطر اور دل برداشتہ ہوگئے اور سالانہ تعطیلات میں اپنے گھر پہنچنے کے بعد اپنا استعفاء بھجوادیا اور مطالعہ کُتُب میں مصروف ہوگئے۔ پٹنہ میں مغرب زدہ لوگوں کے بُرے برتاؤ سے متاثر ہو کر ملازمت کی چپقلش سے بیزار ہو چکے تھے۔ معاش کے لئے کسی مناسب مشغلہ کی جستجو تھی۔ والد محترم کی نصیحت یاد آئی کہ

میراثِ پدر خوا ہی علمِ پدر آموز

یعنی والد کی میراث حاصل کرنا چاہتے ہوتو والد کا علم سیکھو

خیال آیا کہ کیوں نہ علم طب کی تحصیل کر کے خاندانی پیشہ طبابت ہی کو مشغلہ بنائیں۔ چنانچہ شوال ۱۳۲۶ھ میں لکھنؤ جا کر دو سال میں علم طب کی تحصیل و تکمیل کے بعد وطن واپس ہوئے اور مطب شروع کر دیا۔ خاندانی پیشہ اور خداداد قابلیت کی بنا پر مطب نہایت کامیابی کے ساتھ چل پڑا۔

صدر ِ شریعت اعلیٰ حضرت کی بارگاہِ میں


ذریعہ معاش سے مطمئن ہوکر جُمادِی الاوُلیٰ ۱۳۲۹ھ میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کسی کام سے'' لکھنؤ ''تشریف لے گئے۔ وہاں سے اپنے اُستاذِ محترم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں ''پیلی بھیت'' حاضر ہوئے۔ حضرت محدث سورتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کا ہونہار شاگرد تدریس چھوڑ کر مطب میں مشغول ہوگیا ہے تو انہیں بے حد افسوس ہوا۔ حضرت صدر الشریعہ بریلی شریف جانے لگے تو ایک خط اعلی حضرت کی خدمت میں تحریر فرما کر دے دیا اس میں اعلی حضرت سے مولانا امجد علی کو علم دین کی جانب متوجہ کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔

https://fbcdn-sphotos-e-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash3/532178_10151039385165334_1595783212_n.jpg

طَبابت سے دینی خدمت کی طرف مُراجَعَت

صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ خود فرماتے ہیں:

میں جب اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضِر ہوا تو دریافت فرمایا: مولانا کیا کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی: مَطَب کرتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ''مطب بھی اچھا کام ہے ، اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْاَدْیَانِ وَعِلْمُ الْاَبْدَان (یعنی علم دو ہیں ؛ علمِ دین اور علمِ طبّ)۔ مگر مطب کرنے میں یہ خرابی ہے کہ صبح صبح قارورہ (یعنی پیشاب) دیکھنا پڑتا ہے۔'' اِس ارشاد کے بعد مجھے قارورہ (پیشاب) دیکھنے سے انتہائی نفرت ہوگئی اور یہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف تھا کیونکہ میں اَمراض کی تشخیص میں قارورہ (یعنی پیشاب) ہی سے مدد لیتا تھا (اور واقعی صبح صبح مریضوں کا قارورہ ( پیشاب) دیکھنا پڑ جاتا تھا) اور یہ تَصَرُّف تھا کہ قارُورہ بینی یعنی مریضوں کا پیشاب دیکھنے سے نفرت ہوگئی۔

بریلی شریف میں دوبارہ حاضِری

گھر جانے کے چند ماہ بعد بریلی شریف سے خط پہنچا کہ آپ فوراً چلے آئیے۔ چُنانچِہ صدر الشریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی دوبارہ بریلی شریف حاضِر ہوگئے۔ اس مرتبہ ''انجمن اھلسنّت'' کی نظامت اور اس کے پریس کے اہتمام کے علاوہ مدرسہ کا کچھ تعلیمی کام بھی سِپُرد کیا گیا۔ گویا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے بریلی شریف میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مستقل قِیام کا انتِظام فرما دیا۔ اس طرح صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے 18 سال اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت بابرکت میں گزارے۔

بریلی شریف میں مصروفیات


بریلی شریف میں دو مستقل کام تھے ایک دار العلوم منظر الاسلام  میں تدریس ، دوسرا اہلسنت  پریس کا کام یعنی کاپیوں اورپُرُوفوں کی تصحیح ، کتابوں کی روانگی ، خُطوط کے جواب ، آمد وخرچ کے حساب ، یہ سارے کام تنہا انجام دیا کرتے تھے۔ ان کاموں کے علاوہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض مُسَوَّدات کا مَبِیضہ کرنا (یعنی نئے سرے سے صاف لکھنا) ، فتووں کی نقل اور ان کی خدمت میں رہ کر فتوٰی لکھنا یہ کا م بھی مستقل طور پر انجام دیتے تھے۔ پھر شہر و بیرونِ شہر کے اکثر تبلیغِ دین کے جلسوں میں بھی شرکت فرماتے تھے۔

کاموں کی تقسیم یوں تھی کہ بعد نمازِ فَجر ضَروری وظائف و تلاوتِ قراٰن کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پریس کا کام انجام دیتے۔ پھر فوراً مدرَسہ جاکر تدریس فرماتے۔ دوپَہَر کے کھانے کے بعد مُستَقِلا کچھ دیر تک پھر پریس کا کام انجام دیتے۔ نماز ِظہر کے بعد عَصر تک پھر مدرَسہ میں تعلیم دیتے۔ بعد نَمازِ عصر مغرِب تک اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں نشست فرماتے۔ بعدِ مغرِب عشاء تک اور عشاء کے بعد سے بارہ بجے تک اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں فتوٰی نَویسی کا کام انجام دیتے۔ اسکے بعد گھر واپَسی ہوتی اور کچھ تحریری کام کرنے کے بعد تقریباً دو بجے شب میں آرام فرماتے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے اخیر زمانہ حیات تک یعنی کم وبیش دس برس تک روزمرَّہ کا یہی معمول رہا۔ حضرتِ کی اس محنت شاقّہ وعزم واستقلال سے اُس دَور کے اکابِر علماء حیران تھے۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی مولانا محمد رضاخان علیہ رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے تھے کہ مولانا امجد علی کام کی مشین ہیں اور وہ بھی ایسی مشین جو کبھی فیل نہ ہو۔


اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے کئے ہوئے قرآنِ پاک کا ترجمہ ''کنزالایمان" آپ ہی کی کاوشوں کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کو خود قرآن پاک کے ترجمہ کی ضرورت کا احساس تھا، لیکن تصنیف وتالیف اور دیگر علمی مصروفیات کے بے پناہ ہجوم کی وجہ سے اس کام میں تاخیر ہوتی رہی۔ آخر ایک دن صدر الشریعہ نے ترجمہ شروع کرنے کی درخواست کی۔ اعلی حضرت نے اسی وقت ترجمہ شروع کردیا۔ پہلے پہل ایک آیت کا ترجمہ ہوتا، پھر محسوس کرکے کہ اس طرح تکمیل میں بہت دیر لگ جائے گی۔ ایک ایک رکوع کا ترجمہ ہونے لگا۔ اس سلسلے میں حضرت صدر الشریعہ بعض اوقات رات کے دودو بجے تک مصروف رہتے۔


صدرُ الشَّریعہ کا خطاب کس نے دیا؟


حضرت مولانا امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی  لیکن انہیں تفسیر ، حدیث ، اور فقہ سے خصوصی لگاؤ تھا۔ فقہی جزئیات ہمیشہ نوک زبان پر رہتی تھیں۔ اسی بنا پر دور حاضر کے مجدد امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے آپ کو صدر الشریعہ کا لقب عطا فرمایا تھا۔
 
https://fbcdn-sphotos-f-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/308109_10151039384895334_194686877_n.jpg

قاضی شرع

ایک دن صبح تقریباً 9 بجے ، اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَھلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ مکان سے باہَر تشریف لائے ، تخت پرقالین بچھانے کا حکم فرمایا۔ سب حاضِرین حیرت زدہ تھے کہ حضور یہ اِہتمام کس لئے فرمارہے ہیں! پھر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ ایک کرسی پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ میں آج بریلی میں دارُ القَضاء بریلی کے قِیام کی بنیاد رکھتا ہوں اور صدرُ الشریعہ کو اپنی طرف بلا کر ان کا داہنا ہاتھ اپنے دستِ مبارَک میں لے کر قاضی کے منصب پر بٹھا کر فرمایا:

''میں آپ کو ہندوستان کے لئے قاضی شَرع مقرَّر کرتا ہوں۔ مسلمانوں کے درمیان اگر ایسے کوئی مسائل پیدا ہوں جن کا شرعی فیصلہ قاضی شَرع ہی کرسکتا ہے وہ قاضی شَرعی کا اختیار آپ کے ذمّے ہے۔''

پھرتاجدارِ اھلسنّت مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطَفٰے رضاخان علیہ الرحمۃ اوربُرہانِ ملّت حضرتِ علامہ مفتی محمد برہانُ الحق رضوی علیہ الرحمۃ  کو دارالقَضاء بریلی میں مفتی شَرع کی حیثیَّت سے مقرر فرمایا۔ پھر دُعا پڑھ کر کچھ کلمات ارشاد فرمائے جن کا اقرار حضرتِ صدرُ الشَّریعہ علیہ الرحمۃُ نے کیا۔ صدرُ الشَّریعہ علیہ الرحمۃُ نے دوسرے ہی دن قاضی شَرع کی حیثیَّت سے پھلی نِشَست کی اور وِراثَت کے ایک معامَلہ کا فیصلہ فرمایا۔

اعلٰی حضرت کےجنازے کے لئے وصیت


اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی نَمازِ جنازہ کے بارے میں یہ وصیَّت فرمائی تھی کہ

''المنّۃُ المُمْتازہ'' میں نمازِ جنازہ کی جتنی دعائیں منقول ہیں اگر حامد رضا کو یاد ہوں تو وہ میری نماز ِجنازہ پڑھائیں ورنہ مولوی امجد علی صاحِب پڑھائیں۔

حضرتِ حُجَّۃُ الْاِسلام (حضرت مولیٰنا حامد رضا خان) چُونکہ آپ کے'' وَلی'' تھے اسلئے انکو مقدَّم فرمایا ، وہ بھی مَشرُوط طور پر اور انکے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی نگاہِ انتخاب اپنی نمازِ جنازہ کے لئے جس پر پڑی وہ بھی بلا شرط ، وہ ذات صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی کی تھی۔

فرائض واجبات اور سنن پر مدامت


آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات قراٰن وسنّت کے مطابِق تھے ، گفتگو بھی نِہایت مہذَّب ہوتی ، کوئی ناشائستہ یا غیر مُہذَّب لفظ استعمال نہ فرماتے اور آپ کی مجلس غیبت ، چغلی ، دوسروں کی بدخواہی ، عیب جوئی وغیرہ سے پاک ہوتی تھی۔

حضرتِ حافِظِ ملّت فرماتے ہیں:


''میں دس سال حضرتِ صدرُ الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کفش برداری (یعنی خدمت) میں رہا ، آپ کو ہمیشہ مُتَّبِع سنّت پایا۔

حضرتِ صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ اس پربَہُت سختی سے پابند تھے کہ مسجد میں حاضِر ہو کر باجماعت نماز پڑھیں۔ بلکہ اگر کسی وجہ سے مؤذِّن صاحِب وقتِ مقرَّرہ پر نہ پہنچتے تو خود اذان دیتے۔ قدیم دولت خانے سے مسجد بِالکل قریب تھی وہاں تو کوئی دِقّت نہیں تھی لیکن جب نئے دولت خانے قادِری منزل میں رہائش پذیر ہوئے تو آس پاس میں دو مسجدیں تھیں۔ ایک بازار کی مسجد دوسری بڑے بھائی کے مکان کے پاس جو'' نوّاکی مسجد'' کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دونوں مسجدیں فاصلے پر تھیں۔ اس وقت بینائی بھی کمزور ہو چکی تھی ، بازار والی مسجد نِسبتاً قریب تھی مگر راستے میں بے تکی نالیاں تھیں۔ اسلئے ''نوا کی مسجد'' نماز پڑھنے آتے تھے۔ ایک دَفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی نَماز کے لئے جا رہے تھے ، راستے میں ایک کُنواں تھا ، ابھی کچھ اندھیرا تھا اور راستہ بھی ناہموار تھا ، بے خیالی میں کُنوہں پر چڑھ گئے قریب تھا کہ کنویں کے غار میں قدم رکھ دیتے۔ اتنے میں ایک عورت آگئی اور زور سے چِلائی ! ''ارے مولوی صاحِب کُنواں ہے رُک جاؤ! ورنہ گر پڑیو!'' یہ سنکر حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قدم روک لیا اور پھر کنویں سے اتر کر مسجِد گئے۔ اس کے باوُجود مسجد کی حاضِری نہیں چھوڑی۔

https://fbcdn-sphotos-e-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/72394_440261695333_174629_n.jpg

صبر و تحمل

بڑے صاحبزادے حضرت مولانا حکیم شمسُ الہُدٰی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ہو گیا تو صدر الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ اُس وقت نمازِ تراویح ادا کر رہے تھے۔ اطلاع دی گئی تشریف لائے۔ ''اِنا للہ وانا الیہ راجعون '' پڑھا اور فرمایا: ابھی آٹھ رَکعت تراویح باقی ہیں ، پھر نَماز میں مصروف ہوگئے

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہزادی ''بنو'' سخت بیمار تھیں۔ اِس دَوران ایک دن بعد نمازِ فجر حضرت صدر الشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے قراٰن خوانی کے لیے طَلَبہ و حاضِرین کو روکا۔ بعدِ ختم ِقراٰنِ مجید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجلس کو خطاب فرمایا کہ میری بیٹی'' بنو'' کی علالت (بیماری) طویل ہو گئی ، کوئی علاج کارگر نہیں ہوا اور فائدے کی کوئی صورت نہیں نکل رہی ہے ، آج شب میں نے خواب دیکھا کہ سروَرِ کونین ، رحمتِ عالم روحی فداہ گھر میں تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ''بنو'' کو لینے آئے ہیں۔ سیِّدالانام حضورِ اکرم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو خواب میں دیکھنا بھی حقیقت میں بِلا شُبہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ہی کو دیکھنا ہے۔ بنو کی دنیُوَی زندگی اب پوری ہوچکی ہے۔ مگر وہ بڑی ہی خوش نصیب ہے کہ اسے آقا و مولیٰ ، رحمتِ عالم ، محبوبِ ربُّ الْعٰلمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم لینے کے لیے تشریف لائے اور میں نے خوشی سے سِپرد کیا۔


اصلاح کرنے کا انداز


اولاد اور طلبہ کی عملی تعلیم وتربیت کا بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خُصُوصی خیال فرماتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تقویٰ وَتَدیُّن (یعنی دین داری) اس اَمر کا مُتَحَمِّل ہی نہ تھا کہ کوئی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے خِلافِ شرع کام کرے۔ اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علم میں طَلَبہ یا اولاد کے بارے میں کوئی ایسی بات آتی جو احکامِ شریعت کے خِلاف ہوتی تو چِہرہ مبارَکہ کا رنگ بدل جاتا تھا ، کبھی شدید ترین بَرہمی کبھی زَجروتَوبیخ (ڈانٹ ڈَپَٹ) اور کبھی تَنبِیہ وسزا اور کبھی مَوعِظہ حَسَنہ غرض جس مقام پر جو طریقہ بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مناسِب خیال فرماتے استِعمال میں لاتے تھے۔

خلیلِ ملّت حضرتِ مفتی محمد خلیل خان برکاتی علیہ رحمۃ الباقی فرماتے ہیں:


طَلَبہ کی طرف التِفاتِ تام (یعنی بھر پور توجُّہ )کا اندازہ اس واقِعہ سے لگایئے کہ فقیر کو ایک مرتبہ ایک مسئلہ تحریر کرنے میں اُلجھن پیش آئی ، الحمد للہ میرے استاذِ گرامی ، حضرتِ صدرُ الشَّریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی نے خواب میں تشریف لا کر ارشاد فرمایا:''بہارِ شریعت کافُلاں حصہ دیکھ لو۔'' صبح کو اُٹھ کر بہارِ شریعت اٹھائی اور مسئلہ حل کر لیا۔ وصال شریف کے بعد فقیر نے خواب میں دیکھا کہ حضرتِ صدرُ الشَّریعہ علیہ رحمۃُ ربِّ الورٰی درسِ حدیث دے رہے ہیں ، مسلم شریف سامنے ہے اورشَفاف لباس میں ملبوس تشریف فرما ہیں ، مجھ سے فرمایا: آؤ تم بھی مسلم شریف پڑھ لو۔

https://fbcdn-sphotos-a-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash3/546384_10151039384970334_1018945754_n.jpg

حضرتِ شاہِ عالم کا تخت

حضرتِ سیِّدُنا شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ بَہُت بڑے عالمِ دین اور پائے کے ولیُّ اللہ تھے۔ ایک بار بیمار ہوکر صاحبِ فَراش ہوگئے۔ تقریباً چالیس دن کے بعد صحّت یاب ہوئے اور مدرَسے میں تشریف لاکر حسبِ معمول اپنے تخت پر تشریف فرما ہوئے۔ چالیس دن پہلے جہاں سبق چھوڑا تھا وَہیں سے پڑھانا شروع کیا۔ طَلَبہ نے متَعَجِّب ہوکر عرض کی: حضور: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ مضمون تو بَہت پہلے پڑھادیا ہے گزَشتہ کل تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فُلاں سبق پڑھایا تھا! یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فورًا مُراقِب ہوئے۔ اُسی وقت سرکارِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی زِیارت ہوئی۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے لبہائے مبارَکہ کو جنبش ہوئی، فرمایا: ''شاہِ عالم! تمہیں اپنے اَسباق رہ جانے کا بہت افسوس تھا لہٰذا تمہاری جگہ تمہاری صورت میں تخت پر بیٹھ کر میں روزانہ سبق پڑھا دیا کرتا تھا۔'' لہٰذا فورًا تخت پر سے اُٹھ گئےاور تخت کو مسجِد میں مُعَلَّق کردیا گیا۔ اس کے بعد حضرتِ سیِّدنا شاہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کیلئے دوسرا تخت بنایا گیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وِصال کے بعد اُس تخت کو بھی یہاں مُعلّق کردیا گیا۔اِس مقام پر دُعا قَبول ہوتی ہے۔

ایک بار خلیفہ صدر الشریعۃ قاری محمد مصلح الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ صدر الشریعۃ کے ہمراہ حضرت سیدنا شاہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں حاضری کی سعادت حاصل کی اور دونوں تختوں کے نیچے حاضر ہوکر اپنے اپنے دل کی دعائیں کیں۔ جب فارغ ہوئے تو قاری صاحب نے عرض کی : حُضور! آپ نے کیا دعا مانگی؟ فرمایا: ''ہر سال حج نصیب ہونے کی۔'' میں سمجھا حضرت کی دُعا کا مَنشا یِہی ہوگا کہ جب تک زِندہ رہوں حج کی سعادت ملے۔ لیکن یہ دُعا بھی خوب قبول ہوئی کہ اُسی سال حج کا قَصد فرمایا۔ سفینہ مدینہ میں سَوار ہونے کیلئے اپنے وطن مدینۃ العلماء گھوسی ( ضِلع اعظم گڑھ) سے بمبئی تشریف لائے۔ یہاں آپ کو نُمونیہ ہوگیا اورسفینے میں سوار ہونے سے قبل ہی ۱۳۶۷ کے ذیقعدۃُ الحرام کی دوسری شب 12 بجکر 26 مِنَٹ پر بمطابِق 6 ستمبر 1948 کوآپ وفات پاگئے۔


سبحٰنَ اللہ مبارَک تخت کے تحت مانگی ہوئی دُعا کچھ ایسی قبول ہوئی کہ اب آپ اِن شَاءَ اللہ عزّوجل قِیامت تک حج کا ثواب حاصِل کرتے رہیں گے۔ خود حضرتِ صدرالشّریعہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب بہارِ شریعت حصّہ 6 صَفْحَہ 5 پر یہ حدیثِ پاک نقل کی ہے:


جو حج کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا تو قِیامت تک اُس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو عمرہ کیلئے نکلا اور فوت ہوگیا اُس کیلئے قِیامت تک عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا اور جو جہاد میں گیا اور فوت ہوگیا اس کیلئے قِیامت تک غازی کا ثواب لکھا جائے گا۔ (مسند أبي یعلی ، حدیث ۶۳۲۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اس آیتِ مبارَکہ سے آپ کی وفات کامادَّہ تاریخ نکلتا ہے۔

اِنَّ الْمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ
7        6         3        1

بعدِ وفات حضرتِ صدُر الشَّریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کے وُجود ِ مسعود کو بذریعہ ٹرین بمبئی سے مدینۃُ العُلَماء گھوسی لے جایا گیا۔ وہیں آپ کا مزارِ مبارک مرجعِ خواص وعوام ہے۔


https://fbcdn-sphotos-d-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/66075_440261990333_1222669_n.jpg

اللہ رب العزت عزوجل کی صدر ِشریعت پر رحمت ہو اوران کے صدقے ہماری مغفِرت ہو۔۔۔ آمین!!


No comments:

Post a Comment