Friday, 22 June 2012

[~>VU-P!nD!<~] اسلام میں ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیے؟





اسلام میں
ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیے؟

ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟



کثیر ازواجی یا تعددِ ازواج سے مراد شادی کا ایسا نظام ہے جس میں ایک شخص ایک سے زیادہ شریکِ زندگی رکھ سکتا ہے۔کثیر ازواجی دوقسم کی ہے: 1 کثیر ازواجی زنانہ: جس میں ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔ 2کثیر ازواجی مردانہ: جس میں ایک عورت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی ہے۔ اسلام میں محدود حد تک زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟


قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے
''چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمھیں اچھی لگیں دو دو، تین تین یا چارچار (عورتوں) سے، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم (ان کے ساتھ) انصاف نہ کر سکو گے تو صرف ایک سے(نکاح کرو)۔'' النساء : 3/4

نزولِ قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے۔ اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں۔ لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4تک محدود رکھی ہے۔ اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کر سکے۔
اسی سورت، یعنی سورئہ نساء کی 129 ویں آیت کہتی ہے:

''تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے۔''النساء : 129/4

اس لیے زیادہ شادیاں کرناکوئی قانون نہیں بلکہ استثنا ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔
حلّت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں:

٭ فرض: یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔
٭ مستحب: اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
٭ مباح: یہ جائز ہے، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہے۔
٭ مکروہ: یہ اچھاکام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
٭ حرام: اس سے منع کیا گیا ہے، یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑنا باعثِ ثواب ہے۔

ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اُس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔


عورتوں کی اوسط عمر
قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوتِ مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔

اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ مرتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔


عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے
امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں،نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں، اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ ہیں۔فی الجملہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔


ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابلِ عمل ہے
اگر ایک مرد صرف ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی (یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں۔) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنھیں خاوند نہیں مل سکے گا۔
فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیر شادی شدہ خواتین میں سے ہے یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر ''پبلک پراپرٹی'' (اجتماعی ملکیت) بنے۔ اس کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ یقیناپہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب صورتحال گمبھیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کر سکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اُس کی دوسری مسلمان بہنیں ''پبلک پراپرٹی'' یعنی اجتماعی ملکیت بن کر رہیں۔

شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدمِ تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا، حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زندگی بسر کر سکتی ہے۔ اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا ''اجتماعی ملکیت'' بن جائے۔ اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دِلاتا ہے اور دوسری صورت کی قطعًااجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔



ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟

''اگر اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟''

بہت سے لوگ جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں اس امر کی دلیل مانگتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے تو یہی ''حق'' عورت کو کیوںنہیں دیا گیا؟
سب سے پہلے میں یہ کہوں گی کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا ہے لیکن مختلف صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ۔ مرد اور عورت جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس لیے کہ ان کے کردار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ مرد اور عورت اسلام میں برابر ہیں لیکن ہو بہو ایک جیسے نہیں۔
سورئہ نساء کی آیات 22 تا 24 میں ان عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے مسلمان مرد شادیاں نہیں کر سکتے، مزید برآں آخری آیت 24 کے مطابق ان عورتوں سے بھی شادی ممنوع ہے جو'' شادی شدہ ''ہوں۔ مندرجہ ذیل نکات یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو ایک سے زیادہ مرد رکھنے سے کیوں روکتا ہے:

٭ اگر ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کی آسانی سے شناخت ممکن ہے۔ اس صورت میں بچے کی ماں اور باپ کی پہچان ہو سکتی ہے۔ ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر باپ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسلام ماں اور باپ دونوں کی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے نزدیک جو بچے اپنے والدین کو نہیں جانتے، خاص طور پر اپنے باپ کو، وہ بہت زیادہ ذہنی تکلیف، بے چینی اور کشمکش کا شکار ہوتے ہیں اور اکثر ایسے بچوں کا بچپن ناخوشگوار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طوائفوں کے بچوں کا بچپن صحت مند اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور اس وقت ماں سے اس کے باپ کا نام پوچھا جاتا ہے تو اُسے دو یا اس سے زیادہ ناموں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بدولت جین ٹیسٹ کے ذریعے سے ماں اور باپ کی شناخت ہو سکتی ہے، اس لیے یہ نکتہ جو ماضی میں مؤثر تھا ممکن ہے کہ اب نہ ہو لیکن بچوں کے ناخوشگوار بچپن اور ان کی ذہنی تکلیف کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے اور یہ وراثت، یعنی باپ کی جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے مسئلے میں بھی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔

٭ مرد فطری طور پر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔

٭ جسمانی یا حیاتیاتی طور پر ایک مرد کے لیے کئی بیویاں رکھنے کے باوجود اپنے فرائض انجام دینا آسان ہوتا ہے جبکہ ایک عورت کے لیے جو ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہو بحیثیت بیوی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہر گز ممکن نہیں۔ ایک عورت ہر ماہواری کے دوران میں بہت سی نفسیاتی اور مزاج کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔

٭ ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں، اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کر سکتی ہے ،چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔

٭ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے۔ وہ خاوند کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کر سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے اندر ایک فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عمرو بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بندر اور بندریا وہاں آئے۔ بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سو گیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جا کر انھوں نے بدکاری کی، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرنا چاہا تو وہ جاگ اُٹھا۔ اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکٹھے ہو گئے، وہ مسلسل چلائے جا رہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ بندر ادھر ادھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی۔ انھوں نے ان دونوں کے لیے ایک گڑھا کھودا اور انھیں رجم کر دیا۔ (فتح الباری: 202/7، حدیث: 3859) اسی طرح خنزیر کے علاوہ تمام جانوروں میں یہ غیرت کی حس موجود ہے۔ جب حیوان برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی مؤنث کو کوئی اور نر جفتی کرے تو انسان اپنی شریکِ حیات میں شراکت کیسے برداشت کر سکتا ہے؟
یہ تمام وہ ظاہری وجوہ ہیں جن کا آسانی سے علم ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اوربھی بہت سی وجوہ ہوں جن کا علم دانائے راز، اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہی کو بہتر طور پر ہو کہ اس نے عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے سے کیوں منع کیا ہے۔


 

 

 

 

 






--


--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "vupindi" group.
To post to this group, send email to vupindi@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
vupindi+unsubscribe@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/vupindi?hl=en

No comments:

Post a Comment