Tuesday, 27 March 2012

[~>VU-P!nD!<~] Salam Tum Par, (Must read)

تم پر سلام ہو


سب فلسفے دھرے رہ جاتے ہیں، دلیلیں منہ تکتی رہ جاتی ہیں، پندونصائح بے اثر ہوجاتے ہیں ،زورِ خطابت دم توڑ دیتا ہے، اہلِ منبر و محراب دنگ رہ جاتے ہیں……..جبے عمامے اپنی شان و شوکت کھو بیٹھتے ہیں ،پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگتے ہیں، زمین تھرانے لگتی ہے، ساری حکمتیں ناکارہ اور سارے منصوبے نابود ہوجاتے ہیں۔ ذلیل دنیا کے چاہنے والے کتے دم دباکر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، اہلِ حشمت و شوکت منہ چھپانے لگتے ہیں، محلات بھوت بنگلے بن جاتے ہیں، منظر بدل جاتا ہے، موسم بدلنے لگتا ہے ،آسمان حیرانی سے تکتا ہے ،شجر میں بیٹھے ہوئے پرندے اور جنگل میں رہنے والے درندے راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ جب دیوانے رقص کرتے ہیں ،جنوں اپنے گریباں کا علم بناکر نکل پڑتا ہے۔
پھر عقل خود پر شرمندہ ہوتی ہے،جب عشق اپنی جولانی پر آتا ہے، نعرہئ مستانہ بلند سے بلند تر اور رقصِ بسمل تیز سے تیز ہوتا چلا جاتا ہے۔ جب موت کی تلاش میں نکلتی ہے زندگی۔ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہوتا ہے لیکن…….لیکن ہمیں نظر نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے!ان دیدوں میں بینائی کہاں ہے ،روشنی کہاں ہے؟ روشنی اور بینائی تو اندر سے پھوٹتی ہے۔ جی……. اندر سے دل سے اور جسے ہم دل سمجھ بیٹھے ہیں وہ تو صرف خون سپلائی کرنے کا پمپ رہ گیا ہے۔ دل کہاں ہے؟ نہیں یہ دل نہیں بس اک آلہ ہے۔ جن کے دل دھڑکتے ہیں وہ زمانے سے آگے چلتے ہیں۔ نعرہئ مستانہ لگاتے سربکف میدان میں اترتے ہیں۔ موت کو للکارتے ہیں اور موت ان سے خائف ہوکر کہیں چھپ کر بیٹھ جاتی ہے۔ یہ دیوانے اور پاگل لوگ موت کو موت کے گھاٹ اتارنے نکلتے ہیں اور پھر زندہئ جاوید ہوجاتے ہیں۔ زندہئ جاوید…….پھر رب کریم جلال میں آتا ہے اور حکم دیتا ہے:
مردہ کہنے والو!ایسا خیال بھی مت کرنا ،خبردار جو ایسے سوچا بھی۔ زندہ ہیں امر ہیں رزق پاتے ہیں زندہ ئجاویدلوگ……….امر لوگ، رب کے حضور اپنی نذر پوری کردینے والے، اپنا عہد نبھانے والے لوگ، صلہ و ستائش سے بے پروا لوگ، پاگل و دیوانے لوگ۔ کہاں نہیں برپا یہ، معرکہئ عشق و محبت کہاں نہیں برپا؟ روئے ارض پر چاروں طرف سجا ہوا ہے میلہ……….اور میلہ لوٹنے والے دیوانے۔ ہم صرف تماشائی، نوحہ گر اور مرثیہ خواں۔ اب گنواؤں گا تو تکرار ہوگی اور طبعئ نازک پر گراں گزرے گی۔ یہ تو سامنے برپا ہے معرکہ عشق۔ یہ غزہ میں نہیں دیکھ رہے آپ!انہیں کہتے ہیں انسان بندہئ رب ،سب کا انکار کردینے والے پراسرار بندے ،موت کو سینے سے لگاکر زندہ ہوجانے والے، اپنا خون، اپنی جان، اپنے پیارے رب کی نذر کردینے والے، قافلہ حسینؓ کے لوگ۔
ستاون اسرائیل مسلم لبادہ اوڑھے ہوئے، ہم سب کے سب بس سوگ مناتے ہوئے، آہ و زاری کرتے ہوئے کبھی نہیں سوچتے کہ پہلے اِن کاسہ لیسوں سے جو ہماری مسلم دنیا پر قابض ہیں ،جان چھڑائیں۔ جب تک یہ مسلط رہیں گے ہم آہ و زاری کرتے رہیں گے اور خود کو بہت بڑا معتبر سمجھتے رہیں گے۔ پہلا کام ان نمک خواروں سے نجات حاصل کرنا ہے۔اب تو اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرنے بھی چھوڑدیئے ہیں۔ خود پر مسلط امریکی اسرائیلی ایجنٹوں کے خلاف کب سینہ سپر ہونگے؟ یہ ایجنٹ ہمیں لے ڈوبے ہیں۔ میں بہت دور چلا گیا ہوں اور آپ کو بھی بہت سے کام ہوںگے۔ بس چلتے چلتے یہ دیکھئے یہ ہے زندگی۔
وہ غزہ شہر میں القدس ہسپتال میں بیٹھی تھی، اس کی ماں، چھتیس سالہ فاطمہ شمعونی بچوں کو دلاسہ دے رہی تھی۔ وہ ان بچوں کی اور اپنی بھی کہانی سناتے ہوئے سسکیاں لیتی رہی۔ امدادی کارکنوں کے مطابق یہ بچے بدھ کے روز چار دن بعد اپنے مرحوم والد اور بے ہوش ماں کے قریب ملے تھے۔ یہ لڑکے ان تیس افراد میں سے تھے جن کے بارے میں فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ اس نے انہیں زیتون سے برآمد کیا۔ عالمی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس (آئی سی آر سی)نے کہا کہ طبی عملے نے دہلا دینے والا منظر دیکھا کہ خوراک اور پانی کی کمی کے باعث کمزور اور زخمی لوگ گھروں میں لاشوں کے بیچ میں بیٹھے تھے۔ یہ واضح نہیں کہ احمد اور سمیع بھی اسی گھر میں تھے ۔ کیونکہ عین ممکن ہے فاطمہ کو بھی ابتدائی طور پر مردہ سمجھا گیا ہولیکن وہ کہتی ہے کہ وہ اور اس کے بچے ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں لمبے انتظار کے بعد مدد ملی۔
فاطمہ شمعونی کے خاندان کے احاطے میں کیا بیتی ابھی واضح نہیں۔ بچ جانے والے افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس خاندان کے پینسٹھ میں سے چھبیس لوگ اسرائیلی فوجی کارروائی میں ہلاک ہوگئے ۔ فاطمہ نے، جنہیں سینے میں چوٹ لگی تھی، کہا کہ ان کے دو بیٹے، خاوند، انکل، آنٹی اور برادر نسبتی ہلاک ہوگئے ہیں۔ میرا ایک زخمی بیٹا رینگ کر پڑوسیوں کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے مقامی ریڈیو اسٹیشن فون پر امداد طلب کی۔ لیکن مدد دیر سے پہنچی۔ سب مر چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں تیسرے روز بے ہوش ہوگئی تھی اور آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو ہسپتال میں پایا۔ ہم نے ان کو بچانے کی کوشش کی لیکن ہمارے پاس فرسٹ ایڈ کا سامان نہیں تھا۔ ہم کئی روز تک بھوکے پیاسے رہے۔ چار روز تک زخمیوں کا خون بہتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایمبولینس والوں نے آکر جن لوگوں کو بچاسکتے تھے بچایا۔ میری بیوی، میرے بیٹوں، عم زادوں کی لاشوں کے ٹکڑے اب بھی گھر میں بکھرے ہوئے ہیں۔
اہل غزہ تم پر سلام ہو، یہ ہے اطاعت ِرب میں جاں سے گزرنا، تم نے ثابت کردیا تم ہو بندگانِ خدا……….اہلِ غزہ تم پر سلام ہو، ہم سب دیکھتے رہ گئے اور تم اپنی مراد پاگئے۔ اے بامراد لوگو!تم پر سلام ہو۔ اے خوش نصیب لوگو!تم پر سلام ہو۔ اے اس دنیائے ناپائیدار کو ٹھوکر مارنے والو!تم پر سلام ہو۔ آنکھیں کھولو……….آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والو!آنکھیں کھولو۔ یہ دیکھو، یہ دل کش منظر سونگھو، اس خوشبو کو جو خوشبوئے شہدأہے۔ دیکھو یہ ہے زندگی……….سب کا انکار۔ کوئی نہیں روک سکتا اس قافلہئ راہِ حق کو۔ اقوام متحدہ ،او آئی سی اور انسانیت کے نام نہاد علم برداروں کے منہ پر تھوک دینے والو!تم پر سلام ہو۔
کیا آپ جانتے ہیں ،کبھی سوچا ہے ہاتھی گھاس کا گٹھا اپنی سونڈ میں پکڑ کر بار بار جھٹکتا کیوں ہے؟ اس لیے کہ کہیں اس گھاس میں چیونٹی نہ ہو۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ چیونٹی کو نگل لے تو وہ اس کے دماغ میں جاکر بیٹھ جاتی ہے اور اپنا ننھا سا پاؤں مارتی رہتی ہے اور ہاتھی دم توڑ دیتا ہے۔ غزہ کے شیروں کو اسرائیلیوں نے چیونٹی سمجھ کر مسلنا چاہا تھا۔ وہ چیونٹی ان کے ہاتھی جیسے جثے کو نابود کردے گی۔ ہاں یہ بات اب اسرائیلیوں کو بھی سمجھ آگئی ہے ہمیں اب تک سمجھ نہیں آئی۔ مزاحمت ہی میں ہے زندگی……….باوقار و قابلِ رشک زندگی۔ غزہ کے باسی محمود نے اپنے سات ماہ کے بچے کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بتایا: میں رات کو بچوں کو کہانی سناتا ہوں، انہیں اپنے نزدیک رکھتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ ہم مرنے والے نہیں ہیں۔ احمد دوران نے کہا: جب بھی ہمارے گھر کے اردگرد کوئی بم پھٹتا ہے تو میں اپنی تین سالہ بچی کے سامنے ناچنا شروع کردیتا ہوں۔ میری بچی بمباری کو اب کھیل سمجھنے لگی ہے۔ موت کو کھیل سمجھنے والو!تم پر سلام ہو۔
اے دنیا کے اسیرو!دنیائے ذلیل کی چاہت میں خوار ہونے والو!اے ستاون نام نہاد اسلامی ریاستوں کے مردود حکمرانو!بے غیرتی کے مجسمو!دیکھو یہ ہے زندگی۔ اہلِ غزہ تم پر سلام ہو۔ وہ دیکھو شہداکے خون سے پھوٹنے والی سحر۔ دیکھو، آنکھیں چرانے سے یہ انقلاب نہیں رکتا۔ اپنے محلات کو بچانے کی آخری کوششیں کرلو……….نہیں بچیں گے یہ، رب کعبہ
کی قسم کچھ بھی نہیں بچے گا۔ وہ دیکھو اقبال آیا:
از زلزلہئ می تر سندِ ہما کاخ نشیناں ما خانہ بدوشم غمِ سیلاب نہ داریم (امراکے محلات پر زلزلہ طاری ہے۔ خانہ بدوش سیلاب کا غم نہیں پالتے)
اے کیمپوں میں رہنے والو!تم پر سلام ہو۔ اے اہلِ غزہ !تم پر سلام ہو۔اے دنیا کے پرستارو! بچاسکتے ہو تو بچالو۔ کچھ نہیں بچے گا۔ کوئی بھی تو نہیں رہے گابس نام رہے گا میرے رب کا۔
خوفِ تادیب سے مظلوموں پہ رویا نہ گیا شامِ مقتل میں کوئی بھی نہ عزادار اٹھا
سامنے تیرے زر افشاں ہے نئی صبحِ امید اپنی پلکوں کو ذرا دیدہ ئخوں بار اٹھا

--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "vupindi" group.
To post to this group, send email to vupindi@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
vupindi+unsubscribe@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/vupindi?hl=en

No comments:

Post a Comment